میری امنگو زرا سا ٹھہرو ۔ ۔ ۔
خوشی مجھے چھوڑ کر چلی ہے
بہار رستہ بدل چکی ہے ۔ ۔ ۔
سکوں کےلمحے سسک رہے ہیں
دلوں میں کھنڈر اتر رہے ہیں
غموں سے کہدو کہ مسکرائیں
میری امنگو ابھی نہ جاؤ
ابھی تو پہلی خراش آئ ہے
وہ بھی احساس کی زباں پر
ابھی تو آئینگے غم ہزاروں
روح پر، دل پہ جسم و جاں پر
ابھی صرف ابتدا ہوئ ہے
ابھی سے تم چھوڑ کرنہ جاؤ
میری امنگو زرا رکو تو ۔ ۔ ۔
ہجر کی راتیں دراز تر ہیں
وصل کی صبحیں کہاں تلاشوں ؟
کسے دکھاؤں خراش دل کی ؟
میری امنگو زرا سنو تو ۔ ۔ ۔
وہ جسکی چاہت میں جگ کو چھوڑا
وہ ہی اندھیرے بخش گیا ہے
اکیلا پن کربناک سا ہے
شب پشیمان ڈس رہی ہے
میری امنگو ابھی نہ جاؤ، میری امنگو چلی بھی آؤ
Related Posts